Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

عشرت جہاں نے مثنیٰ کو کال پر پری کے آنے کی اطلاع دی تو ان کے ساتھ صفدر جمال بھی چلے آئے تھے، پہلی بار وہ پری سے بے حد اپنائیت سے ملے، دعائیں دیں سر پر ہاتھ رکھ کر ساتھ اس کیلئے جیولری سیٹ تھا جس میں ننھے ننھے ڈائمنڈز جگمگا رہے تھے۔ وہ ان سے گفٹ لینے کو راضی نہ تھی، عشرت جہاں نے سمجھایا مثنیٰ نے اصرار کیا تو اس کو مجبوراً گفٹ لینا پڑا۔
”ممی! انکل کو کہہ دیں مجھ کو یہ صدقہ و خیرات قبول نہیں ہے۔
“ صفدر جمال کے جانے کے بعد وہ جیولری بکس ان کے قریب رکھتی ہوئی بے حد ترش لہجے میں گویا ہوئی۔
”صدقہ خیرات! یہ کون سا انداز ہے بات کرنے کا پری؟“ مثنیٰ جیولری بکس ہاتھ میں تھامے دکھ بھرے لہجے میں گویا ہوئیں۔
”ٹھیک انداز ہے ممی! سعود نے آپ لوگوں کو چھوڑ دیا تو آپ کو اور انکل کو محسوس ہوا میں بھی اس دنیا میں موجود ہوں، ورنہ میں تو کسی کو نظر کہاں آنے والی تھی۔


“ وہ سخت متنفر تھی ان سے۔
”ممی! دیکھ رہی ہیں آپ؟“ ان کا لہجہ بھیگا ہوا تھا۔
”ہاں… دیکھ رہی ہوں میں، یہ سب میری نا عاقبت اندیشی کا نتیجہ ہے میری انا کی خاطر کتنی زندگیاں اپنی خوشیوں سے محروم ہو گئی ہیں۔“ عشرت جہاں کے لہجے میں لرزش نمایاں تھیں۔
”بہت محبت ہے پری مجھے آپ سے اتنی محبت ہے کہ شاید ہی کسی ماں کو اپنی بیٹی سے ہو…!“
”اتنی شدید محبت کہ آپ نے رشتہ توڑتے ہوئے میری فکر ہی نہ کی، میں کیسے رہوں گی؟ میرے ساتھ کیا سلوک ہوگا اس کا احساس نہیں ہوا آپ کو؟“ وہ ان کی بات کاٹ کر طنز سے بولی۔
”یہ کیسی محبت تھی ممی! آپ نے گھر بسا لیا۔ ادھر پاپا دوسری وائف لے آئے یہاں آپ سعود کو پاکر مجھے بھلا بیٹھیں اور وہاں پاپا تین بیٹیوں کے باپ بن کر بھول گئے کہ ایک بیٹی اور ہے ان کی۔“ بہت سعی کے باوجود وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکی۔
”روؤ نہیں میری بیٹی۔“ نانو نے بڑھ کر اسے سینے سے لگاتے ہوئے کہا۔
”آج آپ کے سامنے جو لاچار و تنہا بوڑھی نانو موجود ہے یہ سب وقت کے تھپیڑوں نے اس منزل پر لاکھڑا کیا ہے جہاں اپنے ہی کئے گئے فیصلوں نے مجھے تنہا اور دکھی کر ڈالا ہے۔
آج مجھے اپنا کوئی پرسان حال نہیں ملتا، صرف غلط اور بے جا کی گئی زیادتیوں سے اذیت میں مبتلا ہو گئی ہوں میں۔ جہاں صرف درد ہی درد ہے، درد ہی درد۔“
”ایسا آپ نے کیا کیا تھا نانو؟ کوئی تو بات ہو گی ایسی جس نے آپ کو مجبور کیا وہ کیا فیصلے تھے کیسی ضرورتیں درپیش تھیں؟“ وہ یہاں آنے سے قبل عزم کرکے آئی تھی اس بار نانو سے یہ حقیقت معلوم کرکے رہے گی۔
اس کے پاپا اور ممی کی ڈائیورس کیوں ہوئی، وہاں کوئی حقیقت، بتانے کو تیار نہ تھا وہ تو صرف اس کو ممی کو ہی الزام دیتے تھے اور برے برے ناموں سے پکارتے تھے جو اس کو مثنیٰ کی طرف بدگمان کئے ہوئے تھے حقیقت کیا تھی وہ صرف نانو ہی آشکار کر سکتی تھیں سو وہ اس لمحے کو پکڑ کر بیٹھ گئی تھی۔
”ہمارا گھرانہ جدی پشتی رئیسوں میں شمار ہوتا ہے دولت کو لوگ ہمارے گھر کی لونڈی کہتے تھے میں نے بھی جب ہوش سنبھالا تو خود کو شہزادیوں کی طرح پایا اور جب شادی ہوئی تو آپ کے نانا بھی نواب فیملی سے تعلق رکھتے تھے میں نے دولت ہی دولت دیکھی تھی اپنے سے کم حیثیت لوگوں کو میں بات کرنے کے بھی لائق نہ سمجھتی تھی دولت نے میرے دماغ کو مغرور کر ڈالا تھا منیر اور مثنیٰ کی پیدائش اور پھر ان کی پرورش میں وقت گزرتا ہی چلا گیا۔
مثنیٰ تعلیم کے مراحل کو طے کرتی ہوئی یونیورسٹی جا پہنچی تھی اور وہاں جا کر نامعلوم کس طرح یہ فیاض کی محبت میں گرفتار ہو گئی اور محبت ہمیشہ اندھی ہوتی ہے۔“ مثنیٰ نے گہری سانس لی اور صوفے کی پشت گاہ سے سر ٹکا کر آنکھیں موند لیں۔
”مثنیٰ کو نہ اپنا اسٹیٹس یاد رہا اور نہ فیاض کی مڈل کلاس فیملی نظر آئی۔ فیاض سے شادی کرنے کیلئے اس نے ویسی ہی بغاوت کر دی جس طرح اپنی من پسند چیزیں حاصل کرنے کیلئے گھر میں ہڑتال کر دیا کرتی تھی۔
میری بڑی بہن صفدر کی ماما کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو وہ فوراً میرے پاس آئیں اور ارادہ ظاہر کیا اکلوتے بیٹے صفدر سے مثنیٰ کی شادی کا، میری بھی یہی خواہش تھی مگر مثنیٰ نے ہمارے ارادوں پر پانی پھیر دیا یہ کسی طور فیاض کی محبت سے دستبردار ہونے کو تیار نہ تھی ان کا ساتھ آپ کے نانا جان نے دیا وہ آزادی نسواں کے قائل تھے ان کے کہنے پر فیاض اپنی ماں اور بہنوں کو لے آیا تھا۔
ان کے موڈ بھی بگڑے ہوئے تھے۔ جس طرح میں غریب لوگوں میں بیٹی دینے کی قائل نہ تھی اسی طرح وہ بھی بڑے گھر سے امیر بہو لانے پر خوش نہ دکھائی دے رہے تھے اور ان کی ناپسندیدگی دیکھ کر مجھے اندازہ ہو گیا مثنیٰ اور فیاض کی شادی کی عمر زیادہ لمبی نہ ہو گی آہ… کاش… میں اس وقت بیٹی کے گھر کو اجاڑنے کے بجائے بسانے کی کوشش کرتی تو ایسا کچھ نہیں ہوتا جو اب ہم اس دکھ میں مبتلا ہیں۔
“ وہ ایک سرد آہ بھر کر بھیگی آنکھوں کو صاف کرنے لگی تھیں۔
”مما! ایک ہاتھ سے تالی نہیں بجائی جاتی، یہاں آپ اس رشتے سے ناخوش تھیں اور وہاں فیاض کی اماں اور بہنیں قسم کھائے بیٹھی تھیں کہ وہ فیاض کی دوسری شادی کروائے بنا سکون سے نہ بیٹھیں گی۔ شادی کے شروع دنوں میں ہی انہوں نے پروپیگنڈہ شروع کر دیا تھا۔ فیاض نے ان کا بے حد مقابلہ کیا کئی ماہ تک وہ ان کے آگے ڈٹا رہا تھا۔
مگر… کب تک وہ مقابلہ کر سکتا تھا؟ ایک سیدھا سادا مرد کسی ایک عورت کی مکاری کے وار برداشت نہیں کر سکتا۔ کجا کہ وہاں تین عورتیں تھیں وہ کب تک لڑ سکتا تھا؟“
###
عادلہ نے پری کا نام کسی دوسرے مقصد کیلئے لیا او رشیری کے اس کی یاد سے ہمکتے دل پر کسی اور انداز سے اثر پذیر ہوا تھا۔ اس کا نام، وہ بے کل ہو کر اٹھا تھا اور عادلہ کو لے کر لیونگ روم میں آ گیا مقصد اس سے پیچھا چھڑانا تھا چند لمحوں بعد ہی وہ وہاں سے اٹھ کر چلا گیا تھا۔
عادلہ وہاں سے لوٹی تو بڑی بددل و افسردہ تھی۔ اس رات اس کی آنکھوں سے نیند اوجھل تھی۔ عائزہ سو چکی تھی گھر کی لائٹس آف تھیں سب بے خبر سو رہے تھے باہر موسم سرد تھا ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔ ہیٹر آن ہونے کی وجہ سے روم میں گرمائی تھی۔ وہ آئینے کے سامنے بیٹھی تھی تمام لائٹس آن تھیں۔ ان روشنیوں میں وہ چہرے کے ایک ایک نقش کو غور سے چھو چھو کر دیکھ رہی تھی۔
گوری رنگت… غلافی آنکھیں… ستواں ناک… بھربھرے ہونٹ اور ہونٹوں کے نیچے سیاہ تل جو اس کی خوبصورتی میں اضافہ کرتا تھا وہ خوبصورت اور مکمل لڑکی تھی۔
”میرا یہ حسن و جمال کیوں کسی کو دکھائی نہیں دیتا ہے؟ میں اس سے زیادہ حسین نہیں ہورں تو اس سے کم بھی نہیں ہوں۔ پھر کیوں وہ ہی سب کی نگاہوں کا مرکز بنتی ہے؟ کیوں اسی کے دیوانے ہو جاتے ہیں لوگ؟ پہلے طغرل اس کی محبت میں دیوانہ ہوا پھر وہ شیری مرا جا رہا ہے پری کو پانے کی خاطر… میں نے کیا کچھ نہیں کیا۔
پہلے طغرل کی چاہ میں دیوانی ہوئی اور اب شیری کے حصول کیلئے اپنی عزت نفس کو مجروح کرکے اس کے بیڈ روم تک پہنچ گئی اور نامراد ہی رہی ایسا کب تک ہوگا پری کی خاطر میں ساری زندگی اسی طرح ٹھکرائی جاتی رہوں گی؟ اللہ کرے پری مر جائے، اس کے حسین چہرے پر کوئی تیزاب پھینک دے اور وہ ہمیشہ کیلئے بدصورت ہو جائے“ اس نے دل سے پری کیلئے بددعا کی تھی۔
عائزہ نے کروٹ لی اور لائٹس آن دیکھ کر غصے سے بولی۔
”کب تک سوگ مناؤ گی خود کو ریجیکٹ کئے جانے کا؟ خدا کیلئے سو جاؤ اور مجھے بھی سکون کی نیند سونے دو۔“
”ہونہہ، تم تو سدا اسی طرح بکواس کرتی رہنا ایڈیٹ۔“
###
کوٹھری میں قید ہوئے اسے تین دن گزر چکے تھے۔ یہ قید اسے حارث کرمانی کی حکم عدولی کی پاداش میں ہوئی تھی۔ ایک بار انجانے میں وہ اس کی ہوس کا شکار بن گئی تھی اور ہوش میں آنے کے بعد اس نے اس کی بات ماننے سے انکار کر دیا تھا پھر حارث کرمانی نے اسے اپنی دسترس میں لانے کیلئے سزا کے طور پر تہہ خانے میں موجود کوٹھریوں میں سے ایک قید کروا دیا تھا۔
وہ حبشی ملازمہ صبح و شام اس کیلئے کھانا لاتی تھی۔ آج تیسرا دن تھا اس نے کھانے کو ہاتھ نہ لگایا تھا ملازمہ کھانے کی ٹرے لائی تھی گرم و تازہ کھانے کی اشتہا انگیز خوشبو اس کی بھوک سے بے دم ہوتے وجود کیلئے بڑی فرحت انگیز تھی۔ دل چاہا بھاگ کر جائے اور کھانے پر ٹوٹ پڑے، لیکن اسے یاد آیا اس کھانے کی قیمت کس طرح چکانی ہو گی ایسے کھانے سے بہتر بھوک سے مر جانا تھا۔
تین دن سے وہ بھوکی پیاسی تھی نقاہت کے مارے ہلنے کی بھی سکت نہیں رہی تھی اس نے کرب سے آنکھیں بند کر لی تھیں۔ حبشی ملازمہ غور سے اسے دیکھ رہی تھی اس کے انداز میں لحاظ و مروت نہ تھی وہ کھڑی بے رحم انداز میں اس کو دیکھتی رہی اور وہاں سے چلی گئی اس کا کام یہی تھا وہ اسی طرح کھانا لاتی تھی۔ کھڑی ہو کر کچھ دیر اسے دیکھتی اور چلی جاتی شام میں وہ پھر کھانا لے کر آتی تو صبح والے کھانے کی ٹرے جوں کی توں رکھی ہوتی تھی اٹھا کر لے جاتی تھی۔
پیاس سے حلق میں خشکی کے باعث کانٹے سے چبھنے لگے تھے اس کے پیٹ میں الگ عجیب سی اینٹھن بھوک کے مارے شروع ہو چکی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی بھوک سے جلد ہی اس کا دم نکل جائے گا۔ لیکن مرنا اتنا آسان تو نہ تھا جس شخص نے اس کو خریدا تھا وہ اتنی آسانی سے اسے مرنے نہیں دیتا۔ اس بات سے ماہ رخ ناواقف تھی۔
اس کی خواہشوں کا طوفان تھم چکا تھا۔ دریا اتر گیا تھا اور منہ زور جذبوں کی آندھی دم توڑ چکی تھی ان تین دنوں میں اس نے اتنے آنسو بہائے تھے کہ آنسو ختم ہو گئے تھے آنکھیں سوج گئی تھیں اسے احساس ہوا جو اس نے کیا وہ اسے نہیں کرنا چاہئے تھا۔
لیکن اب وقت گزر چکا تھا جو راستہ اس نے اپنے لئے منتخب کیا تھا اس پر اب چلنا ہی تھا خواہ انجام جو ہوتا۔ اسے لگا اس تنگ و تاریک کوٹھری میں ہی نہیں وہ پوری دنیا میں ہی تنہا رہ گئی ہے اس کا کوئی بھی نہیں ہے کوئی بھی نہیں۔
###
”دادی جان کیسی ہیں آپ؟ طبیعت کیسی ہے آپ کی؟“ پری نے ان کو فون کیا تھا۔
”میں بالکل ٹھیک ہوں بیٹا! تم تو ٹھیک ہو نا وہاں پر؟“
”جی ہاں، دادی جان! میں بالکل ٹھیک ہوں۔
”ہوں، کل رات کو طغرل کا فون آیا تھا۔ تم سے بات کرنے کا کہہ رہا تھا۔ میں نے بتایا تم گئی ہوئی ہو تو خفا ہو رہا تھا کہ تم کو کیوں جانے دیا میں نے؟ اس طرح میں تنہا ہو گئی ہوں۔“ وہ بڑے پیار بھرے انداز میں بتا رہی تھیں۔
”پھر آپ نے کیا کہا؟“
”بول دیا میں نے تم کہاں جا رہی تھیں۔ میں نے خود ہی زبردستی بھیجا ہے۔“
”ٹھیک ہے، طغرل بھائی کچھ زیادہ ہی مجھ پر رعب جمانے والے ہو گئے ہیں ان کو کہیں حد میں رہیں اپنی۔
“ اتنی دور جا کر بھی اس کو طغرل کا رعب ایک آنکھ نہ بھایا تھا۔
”ارے باؤلی ہو گی ہے پری! وہ بچہ تو میری محبت میں کہہ رہا تھا۔ تم تو اس کے خلاف ہی رہنا ہر وقت لو بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی اس کو ہمیشہ میری فکر رہتی ہے۔ وہ ہی خیال کرتا ہے میرا۔“ دادی کو بھی اس کے پر طیش لہجے نے پتنگے لگا دیئے تھے۔
”ان کو آپ کی فکر ہوتی تو کیوں جاتے چھوڑ کر؟“
”آ جائے گا کچھ دنوں کے بعد کوئی ہمیشہ کیلئے نہیں گیا ہے وہ۔
”دادی جان! میں نے آپ کو کال اس لئے کی ہے آپ مجھے کسی کی حمایت میں بلاوجہ ڈانٹیں۔“ وہ شکایتی لہجے میں ان سے مخاطب ہوئی تھی۔
”لو بھئی یہ تو وہ ہی مثال ہو گئی الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔ غلطی بھی خود کی طغرل کو برا بھلا خود کہہ رہی ہو اور مجھے ہی پھر قصور وار قرار دے رہی ہو۔“ خلاف معمول دادی ہنس پڑی تھیں۔ دادی کی ہنسی نے اس کا موڈ بھی خوشگوار کر دیا تھا ان سے کچھ دیر باتیں کرکے وہ کمرے سے باہر آئی تھی جہاں نانو تیار کھڑی تھیں۔
”کہاں کی تیاری ہے نانو جان؟“ قریب آکر استفسار کیا۔
”شاپنگ کرنے چل رہے ہیں۔“
”اوکے۔ میں ابھی شال لے کر آتی ہوں۔“ نانو کو اس عمر میں بھی شاپنگ کا کریز تھا وہ بے حساب شاپنگ کر رہی تھیں۔ وہ ایک کراکری کی شاپ پر تھیں۔ جب وہ ان سے کہہ کر جیولری شاپ پر آئی تھی وہاں خاصا رش تھا وہ ملٹی شیڈ میں بینگلز دیکھ رہی تھی معاً اسے کسی کی نگاہوں کی تپش کا احساس ہوا تھا۔ اس نے سرسری طور پر دیکھا تھا۔ اردگرد کوئی بھی موجود نہیں تھا اس نے جلدی جلدی بینگلز لے کر رقم ادا کی اور ابھی چند قدم آگے ہی بڑھی تھی اچانک اس سے نگاہوں کا تصادم ہوا تھا… اور وہ دم بخود کھڑی رہ گئی۔

   1
0 Comments